غزہ جل رہا ہے، مگر تخت خالی نہیں۔ ہر کوئی بادشاہ بننے کو بے چین ہے — کوئی بندوق لے کر، کوئی قرارداد اٹھا کر، کوئی انسان کے آنسو بیچ کر۔ یہ وہ بادشاہت ہے جس کے محل ملبے میں دفن ہیں، اور رعایا مٹی میں۔
عرب
دنیا اب صرف بیانات کی بادشاہت چلاتی ہے۔ کوئی قطر میں کانفرنس بلاتا ہے، کوئی
ریاض میں “امن” کے تسبیح دانے گنتا ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی خاموشی ہی دانش
مندی ہے۔ غزہ میں خون بہے یا بچوں کے لاشے بکھریں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ فوٹو سیشن
میں کون اگلی صف میں بیٹھے گا۔ بادشاہت کے خواب اب تسبیح کے دانوں سے نہیں،
“لائکس” اور “ڈالرز” سے گنے جاتے ہیں۔
مغربی
دنیا بھی کم تماشائی نہیں۔ کوئی آزادیِ اظہار کے پرچم تلے جلتے گھروں کی تصویریں
چھاپتا ہے، اور کوئی “دہشت گرد” کا لیبل لگا کر قبر کی مٹی ہلکی کر دیتا ہے۔ جنہوں
نے فلسطینیوں کو تاریخ کا سب سے بڑا سبق دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ اب جغرافیہ بھی
ان سے چھین چکے ہیں۔
اور
حماس؟ وہ بھی بادشاہت کی دوڑ میں پیچھے نہیں۔ تخت بچانے کے لیے رعایا قربان، عزت
بچانے کے لیے لاشیں گنی جا رہی ہیں۔ مزاحمت کا نعرہ اب زندہ رہنے کی نہیں، اقتدار
بچانے کی علامت بن چکا ہے۔
غزہ
میں بادشاہت کا تاج اب خون میں بھیگا ہوا ہے — مگر دعوے دار سب مسکراتے ہیں۔ کوئی
اسرائیل کی طرف دیکھتا ہے، کوئی واشنگٹن کی، کوئی تہران کی۔ سب جانتے ہیں، جو
بادشاہ بنے گا، وہ رعایا کے خون سے نہیں، خاموشی سے حکومت کرے گا۔
اور
رعایا؟ وہ اب صرف ملبے کے نیچے رہ گئی ہے، جہاں بادشاہت کے تمام خواب دفن ہو چکے
ہیں۔
آخر میں صرف ایک سوال باقی ہے —
غزہ کا بادشاہ کون بنے گا؟
جو سب کو مار چکا ہے، یا جو اب بھی زندہ رہنے کی
سزا بھگت رہا ہے؟
No comments:
Post a Comment