Wednesday, 2 April 2025

کیا امریکہ ایران پربراہ راست حملہ کرے گا یا اسرائیل کو استعمال کرے گا؟

صدرڈونلڈ ٹرمپ کی اس دھمکی کے بعد کہ امریکہ ایران پر براہ راست حملہ کرسکتا ہے اکثرماہرین کا موضوع گفتگو ہے: کیا امریکہ کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ ایران پر براہ راست حملہ کرے یا اسرائیل کو بطور پراکسی استعمال کرے؟

ایران پر براہ راست امریکی حملہ یا اس کے اسرائیل کے ذریعے بالواسطہ حملہ کے نتائج کتنے خوفناک ہوں گےاس کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں۔ تاہم زیادہ تر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی طریقہ استعمال کیا جاۓ نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔

ایران پر براہ راست امریکی حملے کے ممکنا نتائج:

براہ راست حملہ پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے، جس میں علاقائی اورعالمی طاقتیں بالخصوص روس اورچین شامل ہو سکتی ہیں۔

ایران فوری جوابی کارروائی کے ذریعہ تیل کی سپلائی میں خلل ڈال سکتا ہے جس سے توانائی کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہیں۔

ایران کے پاس مضبوط علاقائی پراکسیز (حزب اللہ، حوثی، اور عراق اور شام میں ملیشیا) ہیں جو امریکی مفادات، فوجی اڈوں، سفارت کاروں اور اتحادیوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔

بذات خود امریکیوں کا ردعمل سخت ہوسکتا ہے۔ یہ بات تو روز روشن  کی طرح عیاں ہے امریکیوں میں جنگ سے نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کی جنگوں پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالرامریکیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیۓ جائیں۔

ماہرین کی وارنگ ہے کہ بغیر کسی اشتعال انگیزی کے ایران پر براہ راست یکطرفہ امریکی حملہ کا قانونی اور سفارتی جواز نہیں بنتا اوریہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگا اور امریکی ساکھ کو نقصان پہنچاۓ گا۔

اسرائیل کے ذریعے پراکسی حملہ:
ایران پراسرائیل کا پراکسی حملہ امریکہ کو کسی حد تک یہ کہنے کا موقعہ دے گا کہ یہ اسرائیل کا عمل ہے۔ تاہم ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل کا کوئی بھی حملہ امریکہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔ 
اسرائیلی حملہ ایک بڑے علاقائی تنازع کو جنم دے سکتا ہے جس میں لبنان (حزب اللہ)، شام اوریہاں تک کہ عراق بھی شامل ہوسکتے ہیں جوعلاقائی عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔
ایرانی ردعمل:
 ایران کے پاس اسرائیل کے شہروں پر میزائلوں اور ڈرون سے حملہ کرنے کی صلاحیت ہے، اسرائیل پرایران کے حملہ کی صورت میں امریکہ کو بہرحال جنگ میں شامل ہونا پڑے گا۔
کچھ امریکی اتحادی، خاص طور پر یورپی ممالک جو پہلے ہی تناؤ کا شکار ہیں اس جنگ میں شمولیت سے انکار کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا اب بھی یہ مشورہ ہے کہ امریکہ جنگ کے بجائے ڈپلومیسی کا استعمال کرے، جوہری معاہدوں اورعلاقائی سلامتی پر مذاکرات کرے۔ وقت تو یہ ثابت کرچکا کہ اقتصادی پابندیاں اورحد تو یہ ہے کہ سائبر وارفیئر ایران کی معیشت اور فوجی صلاحیتوں کو نشانہ بنانے میں ناکام رہی ہیں۔
براہ راست یا پراکسی جنگ انتہائی مہنگی اورخطرناک ہوسکتی ہے اس لیۓ امریکہ کے لیۓ لازم ہے کہ امریکہ ایران پر کسی بھی طریقہ سے حملہ کرنے کی غلطی نہ کرے بلکہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ بگڑتے ہوۓ تعلقات کوسنوارے اورایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناۓ۔ 

No comments:

Post a Comment